چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے استعفے کا مطالبہ، مولانا فضل الرحمان بھی بول پڑے


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی چیف جسٹس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔
مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے جس طرح اپنے متنازعہ فیصلوں سے سپریم کورٹ جیسے معزز ادارے کو تقسیم کیا ہے اور اس کو ملک کے سپریم ادارے پارلیمنٹ سے محاذ آرائی کی پوزیشن پر لا کراس ملک اور ریاست کو جس طرح کے بحران میں مبتلا کیا ہے اس کا واحد حل اب ان کا استعفی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے مطابق چیف جسٹس کو بغیر کسی تاخیرکے اب استعفی دے دینا چاہیے۔


اس سے قبل گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے بھی چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ میں نواز شریف نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ اپنے منصب اور آئین کی توہین کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والا چیف جسٹس مزید تباہی کرنے کے بجائے فی الفور مستعفی ہو جائے۔۔
میاں نواز شریف نے کہا کہ عدالتیں قوموں کو بحرانوں سے نکالتی نہ کہ بحرانوں میں دھکیلتی ہیں۔ چیف جسٹس نے نہ جانے کونسا اختیار استعمال کر کے اکثریتی فیصلے پر اقلیتی رائے مسلط کردی۔


پنجاب میں عام انتخابات 14 مئی کو کرانے کے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف گزشتہ روز قومی اسمبلی میں قرارداد بھی منظور کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایوان سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے اقلیتی فیصلے کو مسترد کرتا ہے اور سپریم کورٹ کے 4 ججز کے اکثریتی فیصلے کی بھر پور تائید کرتا ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی کی جانب سے پیش کی گئی اس قراداد میں سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کے فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی گذشتہ روز اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ جسٹس من اللہ کے نوٹ کے ساتھ اب ہمارے پاس 4 ججز ریکارڈ پر ہیں۔ یہ واضح ہے کہ چیف جسٹس کی رائے اقلیتی فیصلہ ہے۔ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کو اس غیر آئینی بینچ فکسنگ کو کالعدم کرنے کے لیے فوری طور پر کارروائی کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کے وقار کا سہارا صرف یہی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 3 ممبران کا فیصلہ اس کاغذ کے قابل نہیں ہے جس پر لکھا گیا ہے۔ اگر چیف جسٹس اپنی عدالت کو ٹھیک نہیں کر سکتے اور انصاف کے اس مذاق کا ازالہ نہیں کر سکتے تو شاید وہ کسی اور کو چیف جسٹس کی ذمہ داری لینے کی اجازت دیں۔


مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے استعفی دینے کی بات کی ہے اور کہا ہے کہ پارلیمنٹ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس اور ان کے پسندیدہ ججز کو فیصلہ آنے تک استعفیٰ دینے کو کہا جائے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ انصاف کو آسانی اور غیر جانبداری سے انجام دیا جائے۔
مریم نواز نے کہا کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس حکومت یا کابینہ کو دائر کرنا ہوگا یہاں تک کہ اگر صدر اسے روکتا ہے، تو دنیا برائی کے گٹھ جوڑ کو دیکھے اور جرائم میں ساتھیوں کی نشاندہی کرے۔ اس سے اس حقیقت کو مزید تقویت ملے گی کہ صدر پاکستان چیف جسٹس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔


مریم نواز نے مزید کہا کہ کبھی کسی چیف جسٹس پر ایسی بدتمیزی کا الزام نہیں لگا۔ پی ٹی آئی کی طرف ان کا جھکاؤ نمایاں ہے۔ چیف جسٹس بندیال مستعفی ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی اور عمران خان کی حمایت کے لیے قانون اور آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ اختیارات کے اس صریح غلط استعمال نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں بغاوت جیسی غیر معمولی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ نامور ججز نے چیف جسٹس کے طرز عمل اور تعصب پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔


عوامی نیشنل پارٹی نے بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صدر ایمل ولی خان نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ چیف جسٹس صاحب اب بس! استعفٰی دو۔ اگر استعفٰی نہیں دیا تو عید کے بعد تیار رہیں، ہم اسلام آباد آرہے ہیں۔ پھر عوام آپ سے استعفٰی لے کر رہیں گے۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی، جمہوریت، آئین و پارلیمان کی بالا دستی کی جنگ پہلے بھی لڑی تھی، اب بھی لڑیں گے۔ عدلیہ کی حقیقی آزادی کی تحریک اب ہم چلائیں گے۔