آئینی ترمیم: بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کا مستقبل کیا ہوگا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)گزشتہ روز پاکستانی سیاست کا ایک اور اہم ترین دن تھا جب سینیٹ اور قومی اسمبلی نے 26ویں آئینی ترمیم 2 تہائی اکثریت سے منظور کرلی۔
آئینی ترمیم پر ایک جانب جہاں حکومت مبارکباد وصول کر رہی ہے وہیں اپوزیشن جماعتوں سمیت وکلا نے آئینی ترمیم کو مسترد کردیا ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنے سینیٹرز کو آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہ ڈالنے کی ہدایت کی تھی تاہم اس کے باجود ان کی پارٹی کے سینیٹرز محمد قاسم اور نسیمہ احسان نے آئینی ترمیم کے حق میں اپنا ووٹ دیا۔
سردار اختر مینگل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی سینیٹرز نسیمہ احسان اور محمد قاسم کو حکم دیتی ہے کہ وہ فوری طور پر سینیٹ سے استعفیٰ دے دیں اور اگر یہ کل تک نہ کیا گیا تو انہیں پارٹی سے برطرف کردیا جائے گا۔
بی این پی مینگل کے قائم مقام صدر ایڈوکیٹ ساجد ترین نے بتایا کہ گزشتہ روز 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق سینیٹرز کے ووٹ دینے سے متعلق معاملے پر پارٹی میں تبادلہ خیال جاری ہے جس کے لیے سینیئر قیادت نے سر جوڑ لیے ہیں تاہم مشاورت کے بعد حتمی فیصلے کا اعلان کیا جائے گا۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے ترجمان غلام نبی مری نے بتایا کہ ان کی پارٹی ہمیشہ سے پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے اس نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے تاہم 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر پارٹی کا واضح مؤقف تھا کہ آئینی ترمیم پر بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سینیٹرز ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے لیکن ہم نے دیکھا کہ ہمارے سینیٹرز نے ترمیم کے حق میں ووٹ دے دیا جس پر پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے دونوں سینیٹرز کو مستعفی ہونے کا حکم دے دیا ہے۔
غلام نبی مری نے کہا کہ دراصل دونوں سینیٹرز نے پارٹی پالیسی کی براہ راست خلاف ورزی کی ہے جو بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے دستور کے خلاف ہے اور اگر یہ دونوں سینیٹرز اپنا استعفی نہیں دیتے تو بی این پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اس سلسلے میں کسی بھی فیصلے کا مکمل اختیار پارٹی کے صدر کو ہوگا اور اس کے بعد سردار اختر مینگل جو بھی فیصلہ کریں گے وہ پارٹی کا حتمی فیصلہ تصور کیا جائے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کا مستقبل کیا ہوگا؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کا مؤقف ہے کہ بلوچستان میں پہلے ہی قوم پرست سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی ساکھ کھوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ان سیاسی جماعتوں کا ایوان تک پہنچنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے ایسے میں بات کی جائے اگر بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی تو اس وقت سردار اختر مینگل قومی اسمبلی سے پہلے ہی اپنا استعفی دے چکے ہیں جبکہ آئینی ترمیم کے معاملے پر سینیٹرز سے بھی استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے اگر یہ دونوں سینیٹرز اپنی نشستوں سے مستعفی ہوجاتے ہیں تو وفاقی سطح پر بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی نمائندگی ختم ہو جائے گی۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس عمل سے پارٹی کی وفاق میں موجودگی نہ ہونے سے ان کے مطالبات بھی حل نہیں ہو سکیں گے اور ایسے میں بی این پی مینگل کو دوبارہ عوامی حلقوں کا رخ کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی صوبے کی بلوچ آبادی والے اضلاع میں بھی اپنی مقبولیت کھوتی جارہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ نوجوانوں کا پارلیمانی سیاسی نظام سے بیزار ہونا ہے اور اگر بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل جیسی پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعت پارلیمان سے دوری اختیار کر لے گی تو ایسے میں ان کی سیاست ختم ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل ایک منجھی ہوئی سیاسی جماعت ہے جس کا ہر فیصلہ مستقبل سے جڑا ہوتا ہے۔ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کا استعفیٰ اور اس کے دونوں سینیٹرز سے استعفے کا مطالبہ کرنا اس بات کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ بی این پی ایک تیر سے 2 شکار کرنا چاہتی ہے جو یہ ہیں کہ استعفوں کے ذریعے عوام کے دلوں میں ہمدردی بھی حاصل ہو جائے اور وفاق پر پریشر بھی برقرار رہے۔
تاہم موجودہ حالات کے تناظر میں مستقبل کی سیاست میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کا ایوان تک پہنچانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔