اسلام آباد

پی آئی اے کی نجکاری 31 اکتوبر کو بھی کیوں نہیں ہو سکے گی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)قومی ایئر لائن پی آئی اے کی نجکاری کی بات ویسے 10 سال سے بھی پہلے کی گئی تھی تاہم نگراں حکومت اور پھر موجودہ حکومت نے اس عمل کو جلد مکمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
نگراں دور میں کہا گیا کہ سب کچھ مکمل ہے، پھر وزیراعظم شہباز شریف نے پہلے جون اور پھر اگست میں نجکاری مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دی، تاہم نجکاری کا عمل مکمل تو کیا بولی بھی نہ ہو سکی۔
ماہ ستمبر میں نجکاری کمیشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اب سب کچھ مکمل ہے اور یکم اکتوبر کو بولی ہوگی تاہم ایک مرتبہ پھر سے 31 اکتوبر کی تاریخ دے کر بولی کا عمل مؤخر کردیا گیا۔ اب 31 اکتوبر کو صرف 2 دن رہ گئے ہیں لیکن اب بھی پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی لینے والی 6 کمپنیاں بولی دینے کے لیے تیار نہیں اور کچھ مزید وقت مانگ رہی ہیں جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بھی ایک انٹرویو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں کو مزید جائزہ لینے کے لیے وقت دینا چاہتے ہیں، اس لیے بولی کا عمل ماہ نومبر میں ہو سکتا ہے۔
قومی ایئرلائن جو کہ کئی دہائیوں سے سرکاری خزانے پر بوجھ بن چکا ہے، اس کی نجکاری کا فیصلہ سب سے پہلی مرتبہ 2013 میں کیا گیا تھا، تاہم 2014 کے بعد سے ہی یہ معاملہ تعطل کا شکار رہا، گزشتہ سال حکومت نے مشکل معاشی حالات کے باعث سرکاری خزانے پر بوجھ بننے والے قومی اداروں کی فوری نجکاری کا اعلان کیا تھا اور جن 30 اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا تھا ان میں پی آئی اے کی نجکاری سرفہرست تھی تاہم اب تک یہ نجکاری نہ ہو سکی، 3 مرتبہ بولی کی تاریخ بھی دی گئی تاہم عین بولی کے روز یا اس سے ایک دو روز قبل اس تاریخ میں توسیع کردی جاتی ہے۔
نگراں دور حکومت میں اس وقت کے وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا تھا کہ نجکاری کا کام 98 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور نئی منتخب حکومت کے آتے ہی پی آئی اے کی نجکاری کر دی جائے گی جبکہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے مارچ میں بھی پی آئی اے کی نجکاری پر عملدرآمد کے لیے حتمی شیڈول طلب کیا تھا۔
’پہلے جون پھر اگست کی ڈیڈ لائن دی گئی، اس کے بعد بولی کے لیے یکم اکتوبر، بعد ازاں 31 اکتوبر کا وقت دیا گیا تاہم اب مزید تاخیر کردی گئی ہے‘۔
’پی آئی اے خریدنے کی خواہشمند کمپنیاں مزید جائزہ لینا چاہتی ہیں‘
نجکاری کمیشن کے ذرائع کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے سب کچھ کرلیا گیا ہے اور حتیٰ کہ جو معاہدہ ہونا ہے اس کا مسودہ بھی تیار کیا جا چکا ہے تاہم پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والے فی الحال پی آئی اے کے جہازوں اور کاروبار کا مزید تفصیلی جائزہ لینا چاہ رہے ہیں۔
نجکاری کمیشن کے مطابق اس وقت جو بھی پی آئی اے کو خریدے گا اسے پہلے سال میں 80 ارب روپے پی آئی اے کو چلانے کے لیے چاہیے ہوں گے اور اس کے علاوہ اسے 200 ارب روپے کا قرض واپس کرنا ہوگا، اس بڑی رقم کے باعث دلچسپی لینے والی کمپنیاں جائزہ لینا چاہتی ہیں۔
پی آئی اے خریدنے کے لیے سب سے پہلے 8 کمپنیوں نے رابطہ کیا تھا جس کے بعد 6 نے کوالیفائی کیا تاہم اس وقت صرف 2 کمپنیاں ایئر بلیو اور بلیو ورلڈ سٹی پی آئی اے کی خریداری میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
بلیو ورلڈ سٹی نے بین الاقوامی کنسلٹنٹ رکھا ہوا ہے جو کہ نجکاری کمیشن کے ساتھ مختلف میٹنگز کر چکا ہے اور تقریباً تمام معاملات کا جائزہ لے چکا ہے۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن پہلے واضح کرچکے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا عمل جون میں ہونا تھا تاہم دلچسپی کا اظہار کرنے والی کمپنیوں نے کچھ وقت مانگا اور پی آئی اے کا جائزہ لینے کا تقاضا کیا، بعد ازاں ان کمپنیوں کے نمائندوں کو پی آئی اے کا دورہ کرایا گیا۔
کمپنیوں نے جہازوں کا معائنہ کیا، پی آئی اے کے عملے کی تفصیلات دیکھیں، انجن کی مرمت کا ریکارڈ تک دیکھا اور 2 کمپنیاں تو بیرون ملک کمپنیوں سے بھی معائنہ کرا رہی ہیں۔
اس وقت تک ان کمپنیوں کے ساتھ 3 میٹنگز ہو چکی ہیں، عثمان باجوہ
عثمان باجوہ کے مطابق اس وقت تک ان کمپنیوں کے ساتھ 3 میٹنگز ہو چکی ہیں اور انہوں نے تمام تفصیلات فراہم کرنے کے باوجود مزید تفصیلات مانگی ہیں اور کہا ہے کہ بولی کا عمل مؤخر کرایا جائے۔ چوںکہ کمپنیاں ابھی پی آئی اے کے خسارے اور قرض کی ادائیگیوں کا جائزہ لے رہی ہیں اور وقت مانگ رہی ہیں، اس وجہ سے نجکاری میں مزید تاخیر ہوئی ہے۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کی بات گزشتہ 10 سالوں سے کی جا رہی ہے، اگر نجکاری سنہ 2015 میں ہو جاتی تو بہت بہتر ہوتا اور ملک کا اربوں کا نقصان نہ ہوتا۔
’سیاسی وجوہات بھی پی آئی اے کی نجکاری میں رکاوٹ بنیں‘
انہوں نے کہاکہ سیاسی وجوہات بھی نجکاری میں رکاوٹ بنیں، نجکاری پروگرام اگر مکمل اور کامیاب ہوگا تو اس کے لیے تمام کو ساتھ دینا ہوگا۔ کمرشل بینکوں کو قرض پر 10 ارب روپے سود ماہانہ دینا ہوتا تھا تاہم اب بینکوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد شرح سود کو 23 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد تک کردیا ہے۔
عثمان باجوہ نے کہاکہ حکومت کی تیاری تو اس حد تک ہے کہ اس نے معاہدوں کے ڈرافٹ بھی کمپنیوں کے ساتھ شیئر کردیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والی کمپنیاں 75 فیصد شیئرز کا حصول چاہتی ہیں جبکہ ایک کمپنی تو 100 فیصد شیئر حاصل کرنا چاہتی ہے۔

متعلقہ خبریں